نحمیاہ

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13

باب 2

1 ارتخششتابادشاہ کے بیسویں برس نیسان کے مہینے میں جب مے اُسکے آگے تھی تو میں نے مے اُٹھا کر بادشاہ کو دی اور اِس سے پہلے میں کبھی اُسکے حضور اُداس نہیں ہوا تھا۔
2 سو بادشاہ نے مجھ سے کہا تیرا چہرہ کیوں اُداس ہے باوجودیکہ تو بیمار نہیں ہے؟پس یہ دِل کے غم کے سوا اور کُچھ نہ ہوگا ۔تب میں بہت ڈر گیا ۔
3 اور میں نے بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ ہمیشہ جیتا رہے !میرا چہرہ اُداس کیوں نہ ہو جبکہ وہ شہر جہاں میرے باپ دادا کی قبریں ہیں اُجاڑ پڑا ہے اور اُسکے پھاٹک آگ سے جلے ہُوئے ہیں؟۔
4 بادشاہ نے مجھ سے فرمایا کِس بات کے لئے تیری درخواست ہے ؟تب میں نے آسمان کے خدا سے دُعا کی ۔
5 پھِر میں نے بادشاہ سے کہا کہ اگر بادشاہ کی مرضی ہو اور اگر تیرے خادم پر تیرے کرم کی نظر ہے تو تومجھے یہوداہ میں میرے باپ دادا کی قبروں کے شہر کو بھیج دے تاکہ میں اُسے تعمیر کروُ ں ۔
6 تب بادشاہ نے (ملکہ بھی اُسکے پاس بیٹھی تھی)مجھ سے کہا تیرا سفر کتنی مُدت کا ہوگا اور تو کب لوٹیگا؟غرض بادشاہ کی مرضی ہوئی کہ مجھے بھیجے اور میں نے وقت مُقرر کرکے اُسے بتایا۔
7 اور میں نے بادشاہ سے یہ بھی کہا اگر بادشاہ کی مرضی ہو تو در یا پار کے حاکموں کے لئے مجھے پروانے عنایت ہوں کہ وہ مجھے یہوداہ تک پہنچنے کے لئے گذر جانے دیں۔
8 اور آسف کے لئے جو شاہی جنگل کا نگہبان ہے ایک شاہی خط ملے کہ وہ ہیکل کے قلعہ کے پھاٹکوں کے لئے اور شہر پناہ اور اُس گھر کے لئے جس میں میں رہونگا کڑیا ں بنانے کومجھے لکڑی دے اور چونکہ میرے خدا کی شفقت کا ہاتھ مجھ پر تھا بادشاہ نے میری عرض قبول کی۔
9 تب میں نے دریا پار کے حاکموں کے پاس پہنچا کر بادشاہ کے پروانے اُنکو دِئے اور بادشاہ نے فوجی سرداروں اور سواروں کو میرے ساتھ کردیا تھا۔
10 اور جب سنبلط حورونی اور عمونی غلام طُوبیاہ نے یہ سُنا کہ ایک شخص بنی اِسرائیل کی بہبودی کا خواہان آیا ہے تو وہ نہایت رنجیدہ ہُوئے ۔
11 اور میں یروشیلم پہنچکر تین دِن رہا۔
12 پھر میں رات کو اُٹھا ۔میں بھی اور میرے ساتھ چند آدمی پر جو کُچھ یروشلیم کے لئے کرنے کو میرے خدا نے میرے دِل میں ڈالا تھا وہ میں نے کسی کو نہ بتا یا اور جس جانور پر میں سوار تھا اُسکے سوا اور کوئی جانور میرے ساتھ نہ تھا۔
13 اور میں رات کو وادی کے پھاٹک کو گیا اور یروشلیم کی فصیل کو جو توڑدی گئی تھی اور اُسکے پھاٹکوں کو جو آگ سے جلے ہوُئے تھے دیکھا۔
14 پھر میں چشمہ کے پھاٹک اور بادشاہ کے تالاب کو گیا پر وہاں اُس جانور کے لئے جِس پر میں سوار تھا گذرنے کی جگہ نہ تھی ۔
15 پھر میں رات ہی کو نالے کی طرف سے فصیل کو دیکھکر لوٹا اور وادی کے پھاٹک سے داخل ہوا اور یوں واپس آگیا ۔
16 اور حاکموں کو معلوم نہ ہوا کہ میں کہا ں کہاں گیا یا میں نے کیا کیا اور میں نے اُ س وقت تک نہ یہودیوں نہ کاہنوں نہ اِمیروں نہ حاکموں نہ باقیوں کو جو کار گُذار تھے کچھ بتایا تھا۔
17 تب میں نے اُن سے کہا تم دیکھتے ہو کہ ہم کیسی مُصیبت میں ہیں کہ یروشلیم اُجاڑ پڑا ہے اور اُسک پھاٹک آگ سے جلے ہوئے ہیں۔آؤ ہم یروشلیم کی فصل بنائیں تا کہ آگے کو ہم ذِلت کا نشان نہ رہیں۔
18 اور میں نے اُنکو بتایا کہ خدا کی شفقت کا ہاتھ مجھ پر کیسے رہا اور یہ کہ بادشاہ نے مجھ سے کیا کیا باتیں کہی تھیں ۔اُنہوں نے کہا ہم اُٹھکر بنانے لگیں سو اِس اچھے کام کے لئے اُنہوں نے اپنے ہاتھوں کو مضبوط کیا۔
19 پر جب سنبلط حُورُونی اور عمونی غلام طُوبیاہ اور عربی حیشم نے یہ سُنا تو وہ ہم کو ٹھٹھوں میں اُڑانے اور ہماری حقارت کرکے کہنے لگے تم یہ کیا کام کرتے ہو؟کیا تم بادشاہ سے بغاوت کرو گے؟۔
20 تب میں نے جواب دے کر اُن سے کہا آسمان کا خدا وہی ہم کو کا میاب کر یگا ۔اِسی سبب سے ہم جو اُسکے بندے ہیں اُٹھکر تعمیر کرینگے لیکن یروشلیم میں تمہارا نہ کوئی حصہ نہ حق نہ یاد گار ہے۔